بر صغیر پاک و ہند میں دین اسلام کے فروغ اور مسلمانوں کی معاشرتی اصلاح کا قومی فریضہ انجام دینے والی شخصیات میں حضرت امیر ملت حافظ پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری قدس سرہ کی ذات ستودہ صفات کئی لحاظ سے ممتاز و منفرد ہے۔ آپ بیک وقت میدانِ شریعت و طریقت ، حقیقت و معرفت ادب و سیاست کے شہسوار اور قومی و ملی کارنامے انجام دینے میں عدیم النظیر تھے ۔ ارشاد و تبلیغ کے علاوہ آپ کی ہندوستان کے سیاسی حالات پر بھی عمیق نظر تھی۔ مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور ان کے سماجی ، سیاسی ، معاشرتی ، معاشی ، قانونی اور مذہبی حقوق کے حصول کے لیے چلائی جانے والی کوئی تحریک بھی ایسی نہ تھی جس میں آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لیا ہو۔ یا ایسی تحریکوں کی سرپرستی اور راہنمائی نہ کی ہو۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ علماءو مشائخ کے قدسی گروہ نے ہر دور میں حق و صداقت کا ساتھ دے کر ملت اسلامیہ کی راہنمائی کا فریضہ سر انجام دیا ۔ اس حق گوئی و بیباکی کی پاداش میں کبھی دار و رسن کو چومنا پڑا اور کبھی قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں ۔ کبھی غیروں نے سدراہ بن کر ان کو ناکام بنانے کی کوششیں کی اور کبھی اپنوں ہی نے حسد کی آگ میں جل کر انہیں ذلیل و خوار کرنے کی قسم کھائی۔ مگر قافلہ حق اپنی منزل کی جانب جادہ¿ پیماں رہا اور مخالفین اس کی گردِ راہ کو بھی نہ پا سکے ۔ حضرت امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ کا تعلق بھی اسی قدسی گروہ سے تھا۔ آپ 1834 ءمیں علی پور سیداں ضلع سیالکوٹ پنجاب میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد گرامی کا نام حضرت پیر سید کریم شاہ تھا جو خود بھی عارف باللہ اور ولی کامل تھے ۔ انہوں نے اس ہونہار بیٹے کی تعلیم تربیت کا خاطر خواہ بندوبست کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے سات سال کی عمر میں ہی قرآن پاک حفظ کر لیا۔ بچپن سے ہی آپ کی پیشانی پر نورِ ولایت ظاہر ہوتا تھا اور مجددانہ بزرگی کے آثار نمایاں تھے ۔ آپ نے نامور اساتذہ¿ عصر سے کتب معقول و منقول، تفسیر ، فقہ ، کلام ، میراث، منطق اور حدیث کی تعلیم حاصل کر کے سند فضیلت حاصل کی ۔ حضرت امیر ملت تمام علوم و فنون کے جامع اور تبحر علمی میں یگانہ روزگار تھے ۔ خصوصاً حفظ حدیث کا یہ عالم تھا کہ ایک بار آپ نے بطورِ تحدیثِ نعمت فرمایا کہ مجھے 10 ہزار احادیث بمع اسناد کے یاد ہیں۔ حضرت امیر ملت کو ذہن و قاد طبع سلیم اور عقل کامل فطری طور پر عطا ہوئی تھی۔ چنانچہ آپ حفظ میں امام ذہبی اور ضبط میں حافظ ابن حجر عسقلانی کے ہم پلہ تھے ۔ آپ نجیب الطرفین سید ہیں ۔ آپ کا سلسلہ نسب اڑتیس واسطوں سے حضرت علی المرتضیٰ تک پہنچتا ہے اور آپ کا شجرہ نسب ایک سو اٹھارہ واسطوں سے حضرت آدمؑ تک پہنچتا ہے۔ علوم ظاہری کے بعد آپ فیوض باطنی کی طرف متوجہ ہوئے تو امام کاملین قطب زماں بابا جی فقیر محمد چوراہی قدس سرہ العزیز کے دستِ حق پرست پر سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں داخل ہو کر اسی وقت خرقہ¿ خلافت سے نوازے گئے ۔ اس پر مریدین نے اعتراض کیا تو حضرت باو ا جی نے فرمایا کہ جماعت علی تو چراغ بھی ساتھ لایا تھا، تیل بتی اور دیا سلائی بھی اس کے پاس موجود تھی، میں نے تو صرف اس کو روشن کیا ہے ۔ اس کے بعد آپ نے افغانستان سے راس کماری اور کشمیر سے مدراس اور برما سے ایران تک تبلیغ و اشاعتِ اسلام کے سلسلہ میں گرانقدر خدمات سر انجام دیں اور لاتعداد افراد کو راہِ ہدایت دکھائی اور لاکھوں غیر مسلموں کو حلقہ بگوشِ اسلام کیا۔ حضرت امیر ملت من جانب اللہ مجددِ دوراں کے مرتبے پر فائز اور تجدید و احیائے دین کے لیے مامور من اللہ تھے ۔ آپ چودہویں صدی کے مصلح اور مجدد تھے ۔ آپ نے مسلسل طول و طویل اور دور دراز مقامات پر پہنچ کر ہر قسم کے مصائب برداشت کر کے اپنی شبانہ روز محنت و ریاضت سے دین حق کی تجدید فرمائی اور ارکان و شعائر اسلام کا احیا فرمایا۔ جب بر صغیر میں مسلمانوں میں دین متین کی صحیح روح مفقود ہونے لگی تھی تو آپ نے تجدید دین اور احیائے مذہب کیا۔ برصغیر پاک و ہند میں جا بجا دینی مدارس، مساجد، سرائیں ، رفاعی ادارے اور علاج معالجے کے لیے ہسپتال تعمیر کرائے۔ 1885 ءمیں لاہور میں انجمن نعمانیہ کی بنیاد رکھی اور 1901 ءمیں انجمن خدام الصوفیہ کی بنیاد رکھی ۔
مسلم یونیورسٹی کے قیام کے سلسلہ میں چندہ جمع کرنے کی مہم شروع ہوئی تو لاہور کے ایک عظیم الشان جلسہ کی صدارت فرماتے ہوئے نواب وقار الملک نے اپنی ٹوپی اتار کر آپ کے قدموں میں رکھدی اور درخواست کی کہ حضرت مسلم یونیورسٹی کا قیام مسلمانوں کی آن کا مسئلہ ہے اور آپ کی امداد کے بغیر یونیورسٹی کا خواب شرمندہ¿ تعبیر نہیں ہو سکتا تو آپ نے فرمایا کہ نواب صاحب آپ وعدہ کریں کہ یونیورسٹی میں دینی و اسلامی تعلیم لازمی ہو گی اور طلباءکے لئے نماز کی پابندی لازمی ہو گی اور نمازوں کی ادائیگی کے لیے یونیورسٹی میں مسجد ہو گی تو میں ہر طرح کے تعاون کے لئے تیار ہوں ۔ نواب صاحب نے اسی وقت وعدہ کیا کہ حضرت آپ کی تمام شرائط ہمیں منظور ہیں تو آپ نے اسی وقت تین لاکھ روپے نقد اپنی طرف سے عنایت فرمائے اور تمام مریدین متوسلین کو حکم فرمایا کہ وہ یونیورسٹی کے ساتھ بھرپور تعاون کریں تو آپ کی اپیل پر لاکھوں کا فنڈ جمع ہو گیا۔ بعد میں تمام عمر آپ یونیورسٹی کی مدد اور سرپرستی فرماتے رہے۔ 1910 ءمیں آپ نے حجاج کی سہولت اور آمد و رفت کے لئے جدہ سے مدینہ منورہ تک حجاز ریلوے لائن کا منصوبہ پیش کیا تو سلطان عبد الحمید خان ”خلیفہ¿ وقت“ نے اسے بہت سراہا تو حضرت امیر ملت نے اسی وقت اپنی جیب خاص سے چھ لاکھ روپے کی گرانقدر رقم مرحمت فرمائی اور مریدین کو حکم فرمایاکہ تو لکھو کھا روپیہ جمع کر کے خلیفہ کو پیش کیا تو وہ منصوبہ پایہ¿ تکمیل کو پہنچا۔
1914 میں علی پور سیداں میں عالی شان سنگ مرمر کی مسجد تعمیر کروائی۔ 1914 میں ہی تحریک ترک موالات چلی تو سب سے پہلے حضرت امیر ملت نے تحریک کی مخالفت کر کے مجاہدانہ کردار ادا کیا۔ اتحاد اسلامی کے احیاءاور مقامات مقدسہ کے تحفظ کی خاطر تحریک خلافت قائم ہوئی تو آپ نے دل و جان سے اس میں حصہ لیا اور دامے درمے قدمے سخنے ہر لحاظ سے اس کی سرپرستی فرمائی۔
1921 مارچ میں فیصل آباد (لائلپور) میں خلافت کا نفرنس میں تاریخی خطبہ صدارت ارشاد فرمایا اور تحریک خلافت میں قائدانہ کردار ادا کیا اور لاکھوں روپے کا چندہ خود دیا اور تمام مریدین کو بھی بھرپور تعاون کے لئے حکم فرمایا تو آپ کی اپیل پر لکھو کھا روپیہ اکٹھا ہو گیا تو اسی موقع پر مولانا شوکت علی جوہر نے آپ کو سنو سئی ہند کے لقب سے یاد کیا۔ آپ نے ہر لحاظ سے سر پرستی فرمائی اور ملک کے طول و عرض کے دورے کر کے جابجا خلافت کمیٹیاں قائم کیں۔ انگریز کے اشارے پر زر خرید ملاو¿ں اور فتویٰ نویسوں نے اس تحریک کو گاندھی کا فرقہ کہہ کر نقصان پہنچانے کی کوشش کی ۔
1923 میں تحریک سنگھٹن میں عظیم الشان سر فروشانہ اور مجاہدانہ کردار ادا کیا۔
مئی 1924 میں کشمیر میں آریہ سماجیوں کے فتنہ کی بھرپور سرکوبی فرمائی اور نومبر 1924 میں ہی فتنہ اارتدار کا قلع قمع فرمایا۔
بیسویں صدی کے تیسرے عشرے کے ابتداءمیں ہندوو¿ں کو مرتد بنانے اور قتل کرنے کے لئے سندھی تحریک کا آغاز کیا اور ہرقسم کے ساز و سامان سے لیس ہو کر اپنی مکروہ و مذموم سکیم کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اپنی بھرپور کوششیں شروع کیں اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایسی درسگاہیں اور ٹریننگ سنٹر کھولنے شروع کر دیئے جس میں نو عمر ہندوو¿ں کو اسلام کے خلاف نفرت کا درس دیا جانے لگا۔ اس کے علاوہ ہندوو¿ں نے حبہ و دستار پوش ملاو¿ں کے ایک گروہ کو طمع و لالچ دے کر اپنی لنگوٹی کا اسیر بنا لیا اور یہ لوگ سودا اعظم اہلسنت و الجماعت کو کفر و شرک کے فتوو¿ں سے نوازنے لگے ۔ ان کی آڑ میں انہوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کر دیں تا کہ مسلمانوں کا نام و نشان مٹا کر خالص ہندو ازم کا معاشرہ تشکیل دیا جائے۔
ہندوو¿ں کے اس ناپاک منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے حضرت امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری ، حضرت مولانا نعیم الدین مراد آبادی ، مبلغ اسلام شاہ عبد العلیم صدیقی ، مفتی اعظم ہند شاہ ، مصطفیٰ رضا خان ، تاج العلما مفتی محمد عمر نعیمی، مولانا نثار احمد کانپوری ، مولانا سید غلام محمد بھیک نیرنگ قدس اسرارہم اور ان کے متبعین نے اس سلسلہ میں عدیم النظیر کارنامے سر انجام دیئے ۔ ان حضرات نے اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے اپنے آپ کو بڑی آزمائشوں میں ڈالا اور حضرت امیر ملت اور آپ کی انجمن خدام الصوفیہ نے جو تاریخ ساز کردار ادا کیا وہ عدیم النظیر ہے ۔ آپ نے اس فتنہ کو کچلنے کے لئے طوفانی دورے کئے ۔ سینکڑوں مبلغین میدان ارتدار میں بھیجے، ہزاروں مدرسے قائم کئے ۔ اپنی جیب خاص سے لاکھوں روپے صرف کر کے اسلام اور قوم کی لاج رکھ لی لیکن ہندو اپنی سرشت سے مجبور ہو کر آئے دن نت نئی سکیمیں بناتا رہتا تا کہ بر صغیر سے مسلمانوں کو ختم کر دیا جائے ۔ ان حالات میں حضرت مولانا نعیم الدین مراد آبادی نے یہ نظریہ قائم کیا کہ اگر ہم نے منظم ہو کر جدو جہد نہ کی تو اگلے چند سال بعد ہندوو¿ں کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے بر صغیر کے ہر ایک سنی عالم کو جھنجھوڑا اور آنے والے مہیب خطرات سے آگاہ کیا۔ حضرت امیر ملت خود بڑی متحرک فعال اور حساس طبیعت کے مالک تھے اور سواد اعظم کی فعال تنظیم کے لئے عرصہ سے بے چین تھے ۔ تو آپ نے اس سلسلہ میں اپنی تمام تر کوشیشیں صرف کر دیں اور آپ کی تائید و حمایت اور سرپرستی میں 19-18-17 مارچ 1925 کو مراد آباد میں پہلی آل انڈیا سنی کانفرنس بڑی شان و شوکت سے منعقد ہوئی جس کی صدارت آپ نے فرمائی۔ اس عظیم الشان اور فقید المثال اجتماع کو کامیاب و کامران بنانے کے لئے بر صغیر کے کونے کونے سے حضرات علماءو مشائخ جلوہ گر ہوئے اور بڑے غور و خوض اور فکر و تدبر کے بعد ”آل انڈیا سنی تنظیم “ کی داغ بیل ڈالی گئی اور اتفاق رائے سے حضرت امیر ملت کو صدر اور مولانا نعیم الدین مراد آبادی کو ناظم اعلیٰ منتخب کیا گیا۔ حضرت امیر ملت نے اپنے خطبہ صدارت میں ارشاد فرمایا کہ ” اس میں کوئی کلام نہیں کہ جو برداشت ہمارے مذہب میں ہے وہ کسی اور مذہب میں نہیں ہے مگر یہ یاد رہے کہ ہم کسی حالت میں بھی اپنے مذہب میں رخنہ اندازی برداشت نہیں کریں گے ۔ ہم کسی شعائر اسلام کو ترک کرنے کے لئے کسی حال میں بھی تیار نہیں ہوں گے ۔ وہ اتفاق اور صلح جس سے ہمارا ایمان اسلام اور اعتقاد جاتا رہے ہم کسی طرح بھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ہندو قوم ہماری سالہا سال کی آزمائی ہوئی ہے۔ ان سے یہ توقع رکھنی کہ وہ ہمارے ساتھ دوستی رکھے گی ، ہمارے ساتھ اتحاد و یگانت کر ے گی بالکل فضول اور لا حاصل ہے ۔ ہمارا اولین فرض ہونا چاہئے کہ ہم ہر جائز طریقے سے اپنی حفاظت اور غیروں سے بچاو¿ اور مدافعت کی کوششیں کریں۔ آپ نے تین گھنٹہ کا طویل خطبہ ارشاد فرمایا۔ 1930 اپریل میں ساردا ایکٹ جو کہ ایک غیر اسلامی قانونی اور مداخلت فی الدین تھا آپ نے انگریز کے اس قانون کی بھرپور مخالفت کی اور اس کو توڑا ۔ لہذا یہ قانون نافذ ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔ 1931 میں کشمیر ایجی ٹیشن میں قائدانہ و مجاہدانہ کردار ادا کیا اور ہر جگہ پر سرپرستی فرمائی ۔ 1935 میں راولپنڈی میں اکابرین ملت اسلامیہ مسجد شہید گنج کے سلسلہ میں جمع ہوئے تو تمام اکابرین نے مسلمانان بر صغیر کی قیادت کے لئے آپ کو امیر ملت منتخب کیا تو سب سے پہلے علامہ عنایت اللہ مشرقی ، مولانا محمد اسحاق مانسہروی و دیگر اکابرین نے بیعت امارت کی تو آپ نے اعلان فرمایا کہ مجھے ایک لاکھ سر فروش نوجوان چاہئیں تو چند ہی دنوں میں اس سے کئی گنا زیادہ تعداد میں نام جمع ہو گئے‘ اسکے بعد بادشاہی مسجد لاہور میں ”شہید گنج کانفرنس “ منعقد کی اسکے بعد ننگی تلواروں کے لاکھوں کے جلوس کی قیادت فرماتے ہوئے اس مقام پر پہنچے تو اپنے خطاب میں آپ نے فرمایا کہ انگریز جو آج مسجد کےلئے تھوڑی جگہ دینے کےلئے تیار نہیں ایک وقت آئے گا کہ وہ پورا ملک مساجد بنانے کےلئے دےگا۔
1935 میں ہی بدایوں میں آل انڈیا سنی کانفرنس منعقد کر کے ملت اسلامیہ کی قیادت و راہنمائی کا حق ادا کر دیا۔ یہ کانفرنس بھی تین دن جاری رہی اور اس کی صدارت بھی آپ نے فرمائی۔ 1904 میں جب ڈھاکہ میں سرکردہ مسلمان لیڈر نواب سلیم اللہ خان کے ہاں سر جوڑ کر بیٹھے اور مسلمانوں کے حقوق کے لئے آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے ایک سیاسی تنظیم کے قیام کا اعلان کیا تو حضرت امیر ملت نے اسی وقت سے تائید و حمایت اور سرپرستی فرمانا شروع کر دی ۔ لیکن جب 1936 میں قائد اعظم محمد علی جناح نے برطانیہ سے واپسی پر مسلم لیگ کی تنظیم نو کی او ہندو مسلم دو جداگانہ قوموں کی بلا آواز بلند کی تو بر صغیر میں سب سے پہلے قائد اعظم نے حضرت امیر ملت کے پاس لاہور میں حاضری دی تو آپ نے قائد اعظم کو اپنے مکمل اور بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ اس کے بعد آپ نے ہر طرح سے مسلم لیگ کی سرپرستی فرمائی اور لاکھوں روپے خود اپنی جیب خاص سے بھی چندہ مرحمت فرمایا اور تمام مریدین کو بھی حکم فرمایا کہ وہ دامے درمے قدمے قلمے سخنے مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کریں اور آپ نے قائد اعظم کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلاتے ہوئے حیدر آباد دکن سے اپنے معتقد نواب بہادر یار جنگ کے ذریعے قائد اعظم کے نام ایک ہمدردانہ اور ہمت افزا پر خلوص خط مع تبرکات بمبئی روانہ فرمایا۔ اس میں آپ نے تحریر فرمایاکہ ” پوری قوم نے بالاتفاق مجھے امیر ملت مقرر کیا ہے اور پاکستان کے لئے جو کوششیں آپ کر رہے ہیں وہ میرا کام تھا لیکن میں سو سال کے قریب عمر کا ضعیف و ناتواں ہوں یہ میرا بوجھ آپ پر آن پڑا ہے ۔ میں ہر لحاظ سے آپ کی مدد کرنا اپنا فرض تصور کرتا ہوں اور اس لئے میں اور میرے متوسلین آپ کے معاون و مدد گار رہیں گے ۔ آپ مطمئن رہیں۔“ 1939 میں جب کانگریس کے سیاسی مقابلے میں مسلم لیگ کو فتح ہوئی اور کانگریس وزارت سے مستعفی ہو گئی تو حضرت قائد اعظم نے جمعة المبارک 22 ستمبر 1939 کو ”یوم نجات “ قرار دے کر اسلامیان ہند سے بعد نماز جمعہ بارگاہ عزوجل میں شکرانہ کے نفل پیش کرنے کی اپیل کی تو آپ نے ملک کے طول و عرض کے علاوہ علی پور سیداں میں شایان شان ”یوم نجات“ منانے کا اہتمام فرمایا تو نماز جمعہ کے بعد نوافل شکر انہ ادا کرنے کے بعد اپنے مخصوس اور دلپذیر انداز میں ہزاروں کے اجتماع سے خطاب فرماتے ہوئے یوم نجات کی اہمیت بیان کی اور فرمایا کہ ” مسلمانو! دو جھنڈے ہیں ایک اسلام کا دوسر کفر کا تم کس جھنڈے کے نیچے کھڑے ہو گے ۔ حاضرین نے با آواز بلند جواب دیا ”اسلام “ پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ جو کفر کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو تو کیا تم اس کے جنازے کی نماز پڑھو گے ؟ حاضرین با الاتفاق کہا نہیں ہرگز نہیں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ اس وقت اسلامی جھنڈا مسلم لیگ کا ہے ہم بھی مسلم لیگ کے ساتھ ہیں اور سب مسلمانوں کو مسلم لیگ میں شامل ہو جانا چاہئے۔“
اس زمانے میں عام مسلمانوں کا سیاسی شعور بیدا ہو چکا تھا اور مسلمان اپنے دوست دشمن میں تمیز کرنے لگے تھے تا ہم کثیر التعداد مسلمان ہنوز مسلم لیگ سے برگشتہ تھے اور قائد اعظم کو اجنبی سمجھتے تھے لیکن آپ نے ملک کے طول و عرض کے دورے کر کے قائداعظم اور مسلم لیگ کی فضا ہموار کی تو آپ کے لکھو کھا مریدین اور متوسلین نے خود بھی مسلم لیگ میں شمولیت کی اور دیگر مسلمانوں کو بھی مسلم لیگ کے پرچم تلے لا کھڑا کیا۔ 1940 ءمیں جب قائد اعظم علیحدہ قومیت کی بناءپر جداگانہ حکومت کا نظریہ منوانے میں کامیاب ہو گئے تو آپ نے 23 مارچ 1940 کو قرار داد پاکستان کے موقع پر قائد اعظم کو اپنی مکمل تائید و حمایت کا یقین دلاتے ہوئے تحریر فرمایا۔ تار کا مضمون یہ تھا ”فقیر مع نو کروڑ جمیع اہل اسلامیان ہند دل و جان سے آپ کے ساتھ ہے اور آپ کی کامیابی پر آپ کو مبارکباد دیتے ہوئے آپ کی ترقی مدارج اور کامیابی کے لئے دعا کرتا ہے ۔“
23 مارچ 1940 کو لاہور میں قرار داد پاکستان کے سلسلہ میں علمائے اہلسنت نے حضرت امیر ملت کی قیادت و سرپرستی میں مسلم لیگ اور قائد اعظم کی تائید و حمایت میں بھرپور سرگرمی دکھائی جبکہ جمعیت علمائے ہند مجلس احرار خاکسار تحریک و دیگر جماعتوں اور تنظیمات نے پاکستان کی مخالفت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا ۔ کچھ تنظیمات کے صدور علماءقائد اعظم کو کافر ابو جہل اور مسلم لیگ کو کافروں کی جماعت کے خطاب سے بھی نواز رہے تھے تو کچھ قائد ین و علماءمسلم لیگ کی قیادت کو غیر اسلامی قرار دینے میں اپنی تمام تر کوششیں صرف کر رہے تھے تو ایسے میں پورے بر صغیر میں حضرت امیر ملت اور ان کے ساتھی علمائے اہلسنت ہی تھے جنہوںنے قائداعظم کو اپنی مکمل تائید و حمایت کا یقین دلاتے ہوئے تحریک پاکستان میں تن من دھن کی بازی لگا دی ۔ اسی موقع پر یعنی 23 مارچ 1940 ءکو قرار دادِ پاکستان کے سلسلہ میں آپ نے ایک بیان جاری فرمایا کہ ”مسلمانو! مسلم لیگ ہی ایک اسلامی جماعت ہے اس لئے سب مسلمانوں کو چاہئے کہ اس میں شامل ہو جائیں ۔ اگر اس میں شامل نہ ہوں گے تو کون سی ایسی جماعت ہے جو مسلمانوں کی ہمدرد ہو سکتی ہے ۔ کانگریس سے اس بات کی توقع رکھنا کہ مسلمانوں کی حمایت کرے گی فضول ہے ۔“
26 جولائی 1943 کو جب قائد اعظم پر قاتلانہ حملہ ہوا تو آپ ان دنوں حیدر آباد دکن میں تشریف فرما تھے تو اسی رات 10 بجے لسان الامت قائد ملت حضرت الحاج نواب بہادر یار جنگ (ف 1944 ) صدر آل انڈیا اسٹیٹس مسلم لیگ و صدر مجلس اتحاد المسلمین حیدر آباد دکن نے عجیب پریشانی کے عالم میں آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر یہ روح فرسا خبر سنائی تو آپ کو اس خبر سے بہت رنج ہوا اور آپ نے فوراً روبہ قبلہ ہو کر قائد اعظم کی صحت و سلامتی اور درازی¿ عمرہ کا میابی مقاصد کے لئے دعا فرمائی اور دوسرے ہی دن قائد اعظم کے نام مکتوب تحریر فرمایا اور نواب صاحب جب دوبارہ حاضر ہوئے تو پڑھ کر سنایا اور نواب صاحب کی تجویز پر اس کا انگریزی ترجمہ کرا کر کچھ تحائف جن میں ایک قرآن مجید کا قلمی نسخہ مخملی جا نماز ایک تسبیح ایک یمنی شال اور دیگر اشیاءبذریعہ حضرت بخشی مصطفی علی خان (ف 1974 ) (خلیفہ امیر ملت) حضرت قائد اعظم کو روانہ فرمائیں۔ حضرت نے اپنے مکتوب گرامی میں سلام و دعا کے بعد تحریر فرمایا ”پوری قوم نے مجھے امیر ملت مقرر کیا ہے اور پاکستان کے لئے جو کوششیں آپ کر رہے ہیں وہ میرا کام تھا۔ اب میرا بوجھ آپ پر آن پڑا ہے آپ کی ہر طرح کی امداد میں اپنا فرض سمجھتا ہوں ۔ آپ مطمئن رہیں نمرود کی دشمنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین ، فرعون کی دشمنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دین اور ابو جہل کی دشمنی ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی ترقی کا باعث ہوئی ۔ اب یہ حملہ جو آپ پر ہوا ہے یہ آپ کی کامیابی کیلئے نیک فال ہے ۔ میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں کہ آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے۔ جس شخص کو اللہ کامیاب فرمانا چاہتا ہے اس کے دشمن پیدا کر دیتا ہے۔“
1944ء میں ہی حضرت امیر ملت نے سرینگر باغ میں قائد اعطم کی دعوت کی‘ یہ دعوت فرشی تھی۔ قائد اعظم نے حضرت کےساتھ نیچے بیٹھ کر کھانا کھایا جس میں 46قسم کے مختلف کھانے تیار کرائے گئے جس سے قائد اعظم بہت محظوظ ہوئے۔ حضرت امیر ملت کے خادم اورخلیفہ عظیم کشمیری لیڈر چوہدری غلام عباس بھی قائد اعظم کے ہمراہ تھے۔ آپ نے قائد اعظم کو دو چھوٹے چھوٹے جھنڈے عطا فرمائے اور فرمایا کہ آج کے بعد جہاں بھی جائیں اپنے خطاب کے بعد لوگوں کو مخاطب کر کے پوچھیں کے دو جھنڈے ہیں ایک اسلام کا ہے اور دوسرا کفر کا تم کس جھنڈے کے نیچے آنا چاہتے ہو ۔ لوگ کہیں گے اسلام کے جھنڈے کے نیچے تو پھر آپ بتانا کہ اسلام کا جھنڈا جو سبز جھنڈا ہے وہ مسلم لیگ کا جھنڈا ہے اور وہ ہمارے پاس ہے اور کفر کا جھنڈا سیاہ ہے جو کہ کانگریس کا ہے۔“
پھر آپ نے قائد اعظم کو کامیابی کی پیشنگوئی کی اور ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی آپ کی پیشنگوئی پر کامل یقین کرتے ہوئے قائد اعظم نے لاہور کے ایک عظیم الشان جلسہ میں اعلان فرمایا کہ ”میرا ایمان ہے کہ پاکستان ضرور بنے گا کیونکہ امیر ملت مجھ سے فرما چکے ہیں۔“
1944 میں ہی جب کانگریسی علماءنے پاکستان کی مخالفت میں سردھڑ کی بازی لگا رکھی تھی تو حضرت امیر ملت نے قیام پاکستان کی حمایت میں اطراف و اکناف ملک کے دوورے کئے اور قائد اعظم کے حق میں فضا ساز گار بنائی اور قد آدم اشتہارات کے ذریعے مسلم لیگ کی مکمل اور بھرپور حمایت کا اعلان فرمایا اور قوم کو نعرہ دیا ”مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ“ آپ کی جامع اور مدلل تقریر سن کر لوگ کانگریس سے الگ ہو کر مسلم لیگ میں شامل ہو تے جاتے ۔ 1945 میں جمعیت علمائے ہند مجلس احرار اور دیگر جماعتوں نے قائد اعظم پر گھٹیا رکیک اور گھناو¿نے حملے شروع کر دیئے تو آپ نے فرمایا کہ کوئی قائد اعظم کا مذہب پوچھتا ہے ، کوئی جناح کو کافر کہتا ہے ، کوئی ابوجہل اور کوئی ملعون ٹھہراتا ہے اور کوئی مرتد بناتا ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ وہ اللہ کا ولی ہے اور ایک وقت آئے گا کہ تم اسکو اللہ کا ولی بھی مانو گے اور رحمتہ علیہ بھی کہو گے۔
30 اکتوبر 1945 ءکے روزنامہ ”وحدت “ دہلی میں حضرت امیر ملت کا بیان شائع ہوا۔ آپ نے فرمایا ” ہندوستان بھر میں صرف مسلم لیگ ہی ایک ایسی جماعت ہے جو بجا طور پر مسلمانان ہند کے حقوق کی حفاظت اور پاسبانی کر رہی ہے ۔ اس لئے مسلم لیگ کی ہر ممکن امداد کر کے اس کو کامیاب بنانا ہر مسلمان کا فرض اولین ہے اور جو لوگ قائد اعظم اور مسلم لیگ کی مخالفت کر رہے ہیں وہ دشمنانِ اسلام ہیں اس لئے اہل اسلام کے لئے لازم ہے وہ مخالفین پاکستان کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھیں۔ پھر آپ نے ایک فتویٰ جاری فرمایا ”جو شخص پاکستان کے حق میں مسلم لیگ کو ووٹ نہیں دے گا کسی مسلمان کا اس سے کوئی تعلق نہ ہو گا ، کوئی مسلمان اس کا جنازہ نہیں پڑھے گا اور نہ ہی اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔“
اس فتوے کو دیگر اخبارات نے مختلف زبانوں میں شائع کیا۔ اشتہارات کی شکل میں چھپ کر ملک کے کونے کونے میں پہنچ گیا اور ہر مسلمان کے دل کی دھڑکن بن گیا۔
نومبر 1945 کے آخر میں مسلم لیگی امیدواروں کی حمایت میں امیر ملت کا ایک اور بیان شائع ہوا جس میں حضرت نے فرمایا ”دس کروڑ مسلمانان ہند نے فقیر کو امیر ملت تسلیم کیا ہے ۔ مسلمانوں کو اپنے امیر کی راہنمائی پر عمل کرنا نص قطعی سے واجب ہے ۔ امیر کا فرمانبردار، خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانبرادار ہے ۔ امیر کا نافرمان خدا اور سول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نافرمان ہے ۔ میں بحیثیت امیر ملت قائد اعظم کی اس اپیل کی پر زور تائید کرتا ہوں کہ ہر مسلمان مسلم لیگ کے امیدوار کو ووٹ دے اور حیثیت سے زیادہ چندہ بھی دے۔“
اس کے بعدد سمبر 1945 ءمیں آپ نے پورے ملک کے علماءو مشائخ کو جمع کیا اور پاکستان کی فضا ساز گار بنانے کیلئے کہا تو برصغیر کے نامور صوفیائے کرام مشائخ عظام و علمائے کرام نے مسلم لیگ کی تائید و حمایت میں ایک مشترکہ اعلان جاری فرمایا جس میں انہوں نے اپنے مریدین متعلقین کے علاوہ تمام مسلمانوں کو ہدایت اور تاکید کہ وہ مسلم لیگ کی حمایت کریں۔ اس موقع پر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جو مسلم لیگ میں شامل نہ ہو اور مر جائے تو ان کے مریدین ایسے شخص کا جنازہ بھی نہ پڑھیں اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن بھی نہ ہونے دیں۔
10 مئی 1945 ءکو ایک وفد محدث کچھو چھوی کی قیادت میں علی پور سیداں امیر ملت کے پاس حاضر ہوا اور حضرت امیر ملت سے تیسری آل انڈیا بنارس سنی کانفرنس کی اجازت حاصل کی ۔ کانفرنس کی بہت سی وجوہات تھیں جن کی تفصیل الگ ہے ۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ بنارس گاندھی کا شہر تھا اور اس کا خیال تھا کہ چند مسلمان مل کر ویسے ہی شور مچا رہے ہیں یہ کیا کر سکتے ہیں۔ دوسرا جمعیت علمائے ہند مجلس احرار خاکسار تحریک و دیگر جماعتیں اور تنظیمات بھرپور مخالفت کر رہی تھیں تو ایسے حالات میں علماءو مشائخ و عوام اہلسنت کے اعتماد کو بحال کرنے کے لئے ایک ایسے اجتماع کی ضرورت تھی تو ان حالات میں آل انڈیا بنارس سنی کانفرنس نے تحریک پاکستان کی منزل واضح کر دی ۔ یہ کانفرنس کئی دن جاری رہی ۔ حضرت امیر ملت صدر تھے اور مولانا نعیم الدین مراد آبادی جنرل سیکرٹری۔ کانگریسی علماءنے ہنگامہ کر کے کانفرنس کو سبو تاژ کرنے کا عہد کر رکھا تھا چنانچہ حسب توقع جلسہ کو درہم برہم کرنے کے لئے شور و غوغا کیا گیا۔ قائد اعظم پر کفر کے فتوے لگائے گئے ۔ اشہار تقسیم کئے گئے ۔ حضرت امیر ملت کو 100 سال سے زیادہ عمر ضعیف و ناتوانی اور نقاہت کے باجوود جب جلسہ گاہ میں لایا گیا تو آپ کو ان باتوں کی خبر ہو گئی تو آپ نے کرسی صدارت پر تشریف فرما ہوتے ہی ارشاد فرمایا کہ حکومت کانگرس اور مخالفین کان کھول کر سن لیں کہ اللہ رب العزت کی بارگاہ سے پاکستان کی منظوری ہو چکی ہے اور پاکستان ضرور بن کر رہے گا۔ اب اگر مسلم لیگ یا قائد اعظم مطالبہ پاکستان سے دستبردار بھی ہوتے ہیں تو ہم پھر بھی پاکستان بنا کر رہیں گے اور قائد اعظم کا مذہب اور عقیدہ پوچھنے والوں کو میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ تم اسے کافر کہتے ہو ، میں اسے اللہ کا ولی کہتا ہون۔ پھر قرآن کریم کی آیات پیش فرمائیں ( ان الذین آمنو و عملو الصلحت سیجعل لحم الرحمن ودا) وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے خدا ان کی محبت مخلوق کے دل میں پیدا کر دے گا۔ اس کے بعد مجمع میں ایک ولولہ جذبہ اور جوش و خرورش پیدا ہو گیا اور فضاءنعرہ تکبیر و رسالت سے گونج اٹھی۔ ”امیر ملت زندہ باد “ ، ”مسلم لیگ زندہ باد “ ، ”پاکستان زندہ باد “ کے فلک شگاف نعروں کے آگے فریق مخالف کو راہ فرار اختیار کرنا پڑی ۔ اس کانفرنس میں پانچ ہزار کے قریب علماءو مشائخ اور لاکھوں کا عوامی اجتماع تھا۔ امیر ملت جلوت پسند تھے ان کی زندگی حر کی تھی سکونی نہ تھی۔ آپ کی حیات مبارکہ مذہبی ملی دینی بلکہ سیاسی خدمات سے عبارت ہے ۔ آپ نے پاک و ہند میں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک سفر کیا اور خوابیدہ قوم کو بیدا رکیا۔ فتنہ ارتدار، شدھی تحریک، تحریک خلافت، تحریک ہجرت، تحریک آزادی کشمیر، تحریک علی گڑھ یونیورسٹی ، تحریک مسجد شہید گنج ، تحریک ساردا ایکٹ غرضیکہ بر صغیر کی تمام مسلم مفاد تحریکوں میں مجاہدانہ اور قائدانہ کردار ادا کیا اور تحریک پاکستان میں آپ کا کردار تاریخ کا ایک سنہری باب ہے اور نوجوان نسل کے لئے مشعل راہ ۔ ابھی حال ہی میں ڈاکٹر محمد زاہد نے ”امیر ملت اور تحریک پاکستان “ پر پی ایچ ڈی کر رکھی ہے ۔
عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ ہمہ وقت سرشار رہتے ۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام سنتے ہی آپ کی آنکھیں پر نم ہو جاتی تھیں۔ 72 سے زائد مرتبہ آپ حج و عمرہ و زیارات روضہ¿ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہرہ مند ہوئے ۔ سخاوت کا یہ عالم تھا کہ اہل عرب آپ کو ”ابو العرب“ کہتے تھے ۔ اس دور کے اکابر علماءفضلا مشائخ اور دانشور آپ کا بے حد احترام کرتے تھے جن میں ڈاکٹر محمد اقبال ، قائد اعظم محمد علی جناح ، مولانا نعیم الدین مرادی آبادی ، محدث کچھو چھوی ، مولانا عبدالحامد ابدیوانی ، علامہ عنایت اللہ مشرقی ، مولانا محمد اسحاق مانسہروی وغیرہ شامل ہیں۔
الغرض آپ نے اپنی زندگی دین اسلام کےلئے وقف کر رکھی تھی ۔ کوئی بھی اسلامی اور ملی تحریک ایسی نہ تھی جس کو آپ نے چار چاند نہ لگائے ہوں ۔ہزار ہا غیر مسلموں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور لکھو کھا مخلوقات کو آپ کے توسل سے راہ ہدایت نصیب ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیاوی دولت و حشمت سے اتنا نوازا تھا کہ آپ کے ہاں ہر وقت ہزاروں آدمی کھانا کھایا کرتے ۔ آخر کار ولایت آسمانی کے یہ نیر اعظم 26-27 ذیقعد 1370 ھ بمطابق 30-31 اگست 1951 ءبروز جمعرات کی درمیانی شب رات 11 بجے آپ نے اس دار فانی سے سفر فرماکر بقائے دوام حاصل کیا۔ آپ کار و ضہ مطہرہ علی پور سیداں شریف ضلع نارووال میں واقع ہے جو کہ عوام و خواص کا مرجع ہے ۔ حضرت امیر ملت نے اپنے پیچھے نیک صالح متقی پرہیز گار اور علم و عمل کا حسین امتزاج اولاد چھوڑی ہے جس کی آج نظیر نہیں ملتی بالخصوص جانشین امیر ملت پیر سید منور حسین شاہ جماعتی آپ کے مشن کو لے کر شب و روز مصروف عمل ہیں اور پاکستان کے علاوہ برطانیہ و یورپ میں دینی ، مذہبی ، علمی و تبلیغی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔